صدیق

علامہ اقبالؔ

اِک دن رسولِ پاک نے اصحاب سے کہا​ دیں مال راہِ حق میں جو ہوں تم میں مالدار​ ​ارشاد سن کے فرطِ طرب سے عمر اٹھے​ اس روز انکے پاس تھے درہم کئی ہزار​ ​دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق سے ضرور​ بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار​ ​لائے غرض کہ مال رسولِ امیں کے پاس​ ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار​ ​پوچھا حضور وسرورِ عالم نے ، اے عمر !​ اے وہ کہ جوشِ حق سے ترے دل کو ہے قرار​ ​رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟​ مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گذار​ کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق​ باقی جو ہے وہ ملتِ بیضا پہ ہے نثار​ اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا​ جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار​ لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت​ ہر چیز، جس سے چشمِ جہاں میں ہو اعتبار​ مِلکِ یمین و درہم و دینار و رخت و جنس​ اسپِ قمر، سم و شتر و قاطر و حمار​ بولے حضور، چاہئے فکرِ عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار​ ​اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر​ اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار​​
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس​ صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!​

غزل

شکیبؔ احمد

ہم پہ ساقی کی عنایت سے جلے جاتے ہیں یہ جو اَب تک کفِ افسوس ملے جاتے ہیں یاد آ جاتی ہیں بے ساختہ باتیں ان کی بے سبب ہونٹ تبسم میں ڈھلے جاتے ہیں وقتِ رخصت کی پس و پیش انہیں کیا معلوم دل رکا جاتا ہے جانے سے ولے جاتے ہیں رفتہ رفتہ دمِ آخیر بھی آ پہنچے گا رات دن وصل کے وعدوں پہ ٹلے جاتے ہیں جائیے کچھ نہیں کہتے، جو ہوا ہے سو ہوا سارے الزام مقدر کے گلے جاتے ہیں ضبطِ گریہ میں شکیبؔ آپ نے پایا ہے کمال ان کی گلیوں سے بھی چپ چاپ چلے جاتے ہیں